میں اس کے وصل سے جاگا تو سلسلہ تھا وہی
میں اس کے وصل سے جاگا تو سلسلہ تھا وہی کہ ہجر اس کا تھا ویسا ہی مرحلہ تھا وہی دکان شیشہ گراں بھی سجائی تھی اس نے تمام شہر میں پتھر بھی بانٹتا تھا وہی مجھے گمان کے سب راستے اسی نے دیے مرے یقیں کے دیے بھی جلا رہا تھا وہی وصال اس کا برتنا تھا ہجر لکھنا بھی کہ تیز دھوپ میں بارش کا ...