یقین حد سے بڑھا تھا گمان سے پہلے

یقین حد سے بڑھا تھا گمان سے پہلے
جبیں پہ زخم سجا تھا نشان سے پہلے


اسے بھلانے کے رستے میں کتنی یادیں تھیں
شدید دھوپ ملی سائبان سے پہلے


پھر اس کے بعد ہواؤں سے جنگ کرتا رہا
دیا جلا تھا بڑی آن بان سے پہلے


مرے خلاف مقابل نہ تھا منافق تھا
جواب ڈھونڈھ رہا تھا بیان سے پہلے


نتیجہ اس کے ہی حق میں ہے اب محبت کا
جو ساتھ چھوڑ گیا امتحان سے پہلے


چراغ شام کی صورت میں اس کی یاد آئی
اندھیرے پھیلتے جاتے تھے شان سے پہلے


تمام شہر نے عزت اسی سے حاصل کی
جو رسم آئی ہمارے مکان سے پہلے


دیار جاں پہ بھی کچھ بارش کرم ہو جائے
بساؤ دل بھی کسی کا مکان سے پہلے


شکستہ دل کے لئے تھے جو آسرا عادلؔ
وہ تارے ٹوٹ گئے آسمان سے پہلے