دل کو اس کا خیال پیہم ہے
دل کو اس کا خیال پیہم ہے
وقت کو یہ ملال پیہم ہے
خواہشوں کا تری حضوری میں
وہی دست سوال پیہم ہے
اس کی قربت کی آگ ہے دل میں
آسماں پر ملال پیہم ہے
کاروبار جہاں میں یاد اس کی
جیسے کوئی کمال پیہم ہے
زخم بھرتے نہیں ہیں یادوں کے
لذت اندمال پیہم ہے
وہ نہیں ہے تو وقت کچھ بھی نہیں
وہی بس ایک حال پیہم ہے
آرزو بھی نہیں رکھی اس کی
عشق کو یہ ملال پیہم ہے
کون ہے آشنا حقیقت کا
ذہن میں اک خیال پیہم ہے
اب مسافر سفر سے ڈرتے ہیں
منزلوں کو زوال پیہم ہے
مستقل کچھ نہیں ہے دنیا میں
آرزوئے وصال پیہم ہے
زندگی میں ہماری کیا ہے فقط
کرم ذوالجلال پیہم ہے
ذکر اس کا ہے اس طرح عادلؔ
جیسے اپنی مثال پیہم ہے