وہ غم مری پلکوں سے نمایاں بھی نہیں ہے

وہ غم مری پلکوں سے نمایاں بھی نہیں ہے
یوں جشن ہوا ہے کہ چراغاں بھی نہیں ہے


پتھر بھی کوئی مارنے والا نہیں ملتا
آئینہ کسی عکس سے حیراں بھی نہیں ہے


اک جوش طلب ہے کہ اسے ڈھونڈ رہا ہوں
مل جائے گا وہ شخص یہ امکاں بھی نہیں ہے


شہروں سے ہوئیں عشق کی بے تابیاں رخصت
دیوانگئ دل کو بیاباں بھی نہیں ہے


لوٹ آئے گا اک روز یہی خواب میں اپنے
یوں اس سے بظاہر کوئی پیماں بھی نہیں ہے


آنکھوں میں بہت روز سے آنسو نہیں آئے
دریا کا مرے دشت میں امکاں بھی نہیں ہے


مت دیکھ مرے چہرے پہ اس ہجر کا منظر
نظارہ تری آنکھ کے شایاں بھی نہیں ہے


لے جائیں گی منزل پہ اسی دوست کی آنکھیں
رستے میں مسافر کے چراغاں بھی نہیں ہے


اک درد تمنا کو لیے پھرتا ہوں عادلؔ
اس سچی کہانی کا تو عنواں بھی نہیں ہے