نہ شرط کوئی ہے اپنی نہ کوئی سودا ہے
نہ شرط کوئی ہے اپنی نہ کوئی سودا ہے
ہمارے ساتھ اگر تم چلو تو اچھا ہے
لگی ہے آگ کہیں یا چراغ جلتے ہیں
یہاں سے دور جو دیکھیں تو کچھ اجالا ہے
ہمارے حال پہ آنسو ہیں اس کی آنکھوں میں
مگر خیال سا ہوتا ہے یہ بھی دھوکا ہے
گیا تو صدمہ نہیں تھا گماں بھی توڑ گیا
ہمیں گمان یہی تھا کہ وہ ہمارا ہے
بچھڑ کے تجھ سے نہیں ہم کو رنج تنہائی
ہمارے ساتھ تو اب وحشتوں کا میلا ہے
اگر ملے تو کبھی اس سے پوچھنا عادلؔ
ہمیں بتاؤ کوئی یاد تم کو آتا ہے