میں اس کے وصل سے جاگا تو سلسلہ تھا وہی
میں اس کے وصل سے جاگا تو سلسلہ تھا وہی
کہ ہجر اس کا تھا ویسا ہی مرحلہ تھا وہی
دکان شیشہ گراں بھی سجائی تھی اس نے
تمام شہر میں پتھر بھی بانٹتا تھا وہی
مجھے گمان کے سب راستے اسی نے دیے
مرے یقیں کے دیے بھی جلا رہا تھا وہی
وصال اس کا برتنا تھا ہجر لکھنا بھی
کہ تیز دھوپ میں بارش کا راستہ تھا وہی
پرندے دھوپ کی شدت سے گھر کے آنگن میں
پلٹ کے آئے تو دیکھا کہ مسئلہ تھا وہی
وہ اک یقین سے جاتا تھا چھوڑ کر مجھ کو
نباہنے کا مگر دل میں حوصلہ تھا وہی
نئے وصال کے موسم میں جو بدن بھیگا
ہجوم ہجر میں دیکھا تو جل رہا تھا وہی
میں جس کی راہوں سے واپس پلٹنے والا تھا
نظر اٹھائی تو اک روز آ رہا تھا وہی
میں اپنے خوابوں کی دستک سے جاگ اٹھا عادلؔ
بہت سی راتیں تھیں اور سب میں رت جگا تھا وہی