وفا سرشت ہے میری کہا نہ کرتا تھا
وفا سرشت ہے میری کہا نہ کرتا تھا
یہ فیصلہ مرے حق میں ہوا نہ کرتا تھا
بہت دنوں سے مرے گھر پہ روز آتا ہے
بلاتے رہتے تھے جس کو سنا نہ کرتا تھا
یقیں نہیں ہے کہ مجبور ہو گیا وہ بھی
خدا پرست تھا ایسا دعا نہ کرتا تھا
ہزار آنکھوں پہ خوابوں نے دستکیں دی تھیں
مگر وہ حال تھا دل کا کھلا نہ کرتا تھا
بہت کمال تھے اس میں اور ایک یہ بھی تھا
کہ اک مقام سے آگے وفا نہ کرتا تھا