وہ زمانہ ساز بھی تھا اور وفا پیشہ بھی تھا
وہ زمانہ ساز بھی تھا اور وفا پیشہ بھی تھا
میں نے چاہا ہی نہیں اس شخص کو سمجھا بھی تھا
تھی تمازت عشق کی اتنی کہ وہ واپس گیا
ساتھ چلنے کے لئے کچھ دور تک آیا بھی تھا
یہ حقیقت ہی سہی لیکن اسے مانے گا کون
لوگ پیاسے بھی رہے اور آنکھ میں دریا بھی تھا
اس قدر چاہا اسے جتنا نہیں چاہے کوئی
یہ محبت ہی نہیں اس سے مرا بدلا بھی تھا
خود یقیں دل کو نہ تھا اس سے جدا ہونے تلک
وہ جدا ہو جائے گا اس بات کو سوچا بھی تھا
ہجر کی شب میں جو میری آنکھ سے ڈھلکا نہیں
وہ ستارہ تھا جو صبح وصل میں چمکا بھی تھا
دشت ویراں میں کہیں کچھ پھول بھی ہیں یاد کے
صرف چھایا ہی نہیں بادل کبھی برسا بھی تھا
اس شناسائی کا دعویٰ نا شناسی ہی تو ہے
مجھ کو دیکھا بھی تھا جس نے اور جو چونکا بھی تھا
اب میں لب بستہ ہوں عادلؔ تو فقط اس واسطے
صرف سمجھا ہی نہیں اس شخص کو چاہا بھی تھا