Sudhanshu Firdaus

سودھانشو فردوس

سودھانشو فردوس کی نظم

    ملک ہے یا مقتل

    تمہاری خوبصورتی ہے یا موت کا خیال باغوں میں اس بار کچھ زیادہ ہی کھلے ہیں گلاب دیکھو ان موروں کی آنکھوں میں بادلوں کا طویل انتظار ہماری بے چارگی تمہارے ناز و انداز تاریخ گواہ ہے کتابیں بھری پڑی ہے زندہ افسانوں سے اس کشمکش کا حاصل کیا ہے وصل یا فراق یہ آڑی ترچھی سی لکیریں جن سے بنے ...

    مزید پڑھیے

    ذبح

    ان دنوں کھل کر کوئی نہیں ہنستا کوئی نہیں روتا کھل کر ہنسنا چھپا ہوتا ہے رونے میں رونا چھپا ہوتا ہے ہنسنے میں ایسا مجھے نوٹنکی کے اس مسخرے نے بتایا جو ان دنوں گاؤں کے بازار میں مرغے کاٹا کرتا ہے

    مزید پڑھیے

    فرشتہ

    وہ جانتا تھا وہ کبھی نہیں آئے گا پھر بھی اس نے اس کے آنے کی افواہ پھیلائی تاکہ امید زندہ رہے

    مزید پڑھیے

    یاد گوئی

    گریشم کی دل فریب راتری کیا ہوڑ لگا کر کھلے ہیں املتاس اور مدھو مالتی رنگ اور سگندھ آج ڈھو رہے ہیں تمہاری یادوں کی پالکی اس سڑک سے اتنی بار گزرا ہوں کہ آہٹ کو پہچاننے لگے ہیں کتے مجھے اپنے اتنے قریب دیکھ کر بھی ان میں کوئی حرکت کوئی سگبگاہٹ نہیں غالباً اب انہیں بھی مجھ سے کوئی ...

    مزید پڑھیے

    ڈر

    مت سوچو سب اس پے چھوڑ دو مجھے ڈر ہے آخر اس کو کس پہ چھوڑ دوں

    مزید پڑھیے

    دعا گوئی

    کچھ عورتیں چلی آئی ہیں زندگی بھر مجھے کرتے ہوئے معاف ان کا ہمیشہ رہتا ہوں شکر گزار کوئی ایک چوک کو بھی تا زندگی نہیں کر پائی معاف چاہے دلی رہوں یا پنجاب جان گیا ہوں عاشق ہونا نعمت ہے محبوب ہونا عذاب کیا المیہ ہے دعا کے لیے جب بھی اٹھاتا ہوں ہاتھ کم بخت معافی کے لیے دل سے آتی ہے ...

    مزید پڑھیے

    بے رخی

    رات بارش پھول اور انتظار میری بھاشا میں استریوں کے نام ہیں کیا فرق پڑتا ہے جو کہی بھی رہوں تمہاری ساری مسکراہٹیں تصویروں میں قید ہوں پہنچ رہی ہیں میرے پاس ایسا لگ رہا دھرتی پر دو ہی لوگ بے روزگار ہیں ایک میں اور دوسرا شاید وہ آئنہ جس میں آج کل تم کم دیکھا کرتی ہو

    مزید پڑھیے

    داخل‌ خارج

    ہجرت ہوتی ہے سب کی ایک ہی جیسی منزل نہیں ملتی سب کو ایک سی سارے لگاؤ ایک سا ہی دکھ دیتے ہیں خوشیاں دیگر ہوتی ہیں سب کی جو تم اپنا رنج و غم اپنی پریشانی مجھے دے دو سناتے ہوئے زندگی میں آئے وے میرا کچھ سامان تمہارے پاس پڑا ہے وہ لوٹا دو سناتے ہوئے چلے گئے ایک تنہا شخص جب پھر سے تنہا ...

    مزید پڑھیے

    کونا

    میرے بھیتر ایک گول کمرہ ہے جس میں رہتی ہے ایک لڑکی جو رونے کے لئے کونے ڈھونڈتی لگاتار گھوم رہی ہے

    مزید پڑھیے

    الجھن

    سلجھاتے سلجھاتے آخر کار اتنے الجھ گئے ہیں سارے سمیکرن کہ زندگی گویا موج کی رسی ہو گئی ہے اس کے جیون میں نہ کوئی پریم بچا ہے نہ پرتکشا وہ خود ہی محسوس کرنے لگا ہے خود کی ویرتھتا جب بھی سنانا شروع کرتا ہے کوئی قصہ کیندر سے پریدھی تک خود کو کہیں بھی نہیں پاتا ان دنوں اداسی کوئی ہیر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2