یاد گوئی
گریشم کی دل فریب راتری
کیا ہوڑ لگا کر کھلے ہیں املتاس اور مدھو مالتی
رنگ اور سگندھ آج ڈھو رہے ہیں تمہاری یادوں کی پالکی
اس سڑک سے اتنی بار گزرا ہوں کہ آہٹ کو پہچاننے لگے ہیں کتے
مجھے اپنے اتنے قریب دیکھ کر بھی ان میں کوئی حرکت کوئی سگبگاہٹ نہیں
غالباً اب انہیں بھی مجھ سے کوئی توقع کوئی راہ نہیں رہی
بہت سگھن ہے تمہاری پرتکشا
میرا وکلپ آوارگی