سہیل آزاد کی نظم

    سکوت اضطراب

    ایک عرصہ ہوا تجھ سے بچھڑے ہوئے تیرے مدہوش ہاتھوں کی چائے لیے تیرے چہرے کی بے لوث معصوم اپنائیت اجنبیت میں حل ہو گئی تجھ سے اک بار ملنے کو مچلا مگر اپنے لا انتہا دائروں میں سمٹنے لگا آئنہ

    مزید پڑھیے

    مسافر

    مسافر ٹھہر جا اب تیرے حصے کا سفر طے ہو چکا ہے دھوپ اور بارش لپیٹی جا چکی ہے اب سفر کیسا کہ جب رستہ لپیٹا جا چکا ہے جب رفتار کا ہر پل سمیٹا جا چکا ہے مسافر ٹھہر جا اب کہ تجھ کو رکنے کا اشارہ ہو چکا ہے سفر پورا ہوا تجھ کو سنوارا جا چکا ہے

    مزید پڑھیے

    وقت کی انگلی پکڑے پکڑے

    وقت کی انگلی پکڑے پکڑے صدیوں کا پل پار کیا ہے جانے کیوں اب یہ لگتا ہے جیسے مری انگلی خالی ہے جیسے اب کاندھے ویراں ہیں ان پر اب کوئی ہاتھ نہیں ہے پل بھر بھی کوئی ساتھ نہیں ہے پل تنہا ہے پل ہے یا سناٹے کی ویران سدا ہے انگلی تھامنے والا ہاتھ بھی گم سا گیا ہے وقت گزرنے سے پہلے ہی تھم سا ...

    مزید پڑھیے

    وحشت

    جانے کیوں یہ دیواریں مجھ کو گھور کے دیکھتی ہیں جانے کس کی آہٹ پر اکثر کھڑکیاں چونکتی ہیں میں پاگل ہو جاتا ہوں یادوں کی گہری سانسیں اندر تک خالی سانسیں جانے کیوں یہ دیواریں

    مزید پڑھیے

    تلاش

    وہ چھٹی کی گھنٹی وہ کمزور کاندھے پہ بھاری سا بستہ وہ معصوم چہرہ وہ مصروف رستہ سو میں چونک اٹھا آئینے نے بہت غور سے مجھ کو دیکھا میرا ہم زاد ہے تجھ سے پردہ ہی کیا آج پھر یاد اپنی مجھے کتنی شدت سے تڑپا گئی

    مزید پڑھیے

    تار گھر

    عمارت کے باہر ابھی بھی شکستہ سا اک بورڈ ہے جس کو کچھ رنگ نے اتنا بے رنگ کر دیا ہے کہ اب اس کے الفاظ کو ایک اندازہ بھر سے ہی پڑھتے ہیں ہم عمارت بتاتی ہے پہلے کبھی شان تھی اس کے دیوار و در کی بڑی آن تھی اب مگر ایک مدت سے کوئی نہ آیا ادھر اب خوشی اور غم تار بابو کے ہاتھوں سے ہو کر گزرتے ...

    مزید پڑھیے

    دل

    یادوں کے خالی پیکٹ میں اک دیوانہ دل لپٹا تھا جانے کون سڑک پر یارو اس پیکٹ کو پھینک گیا تھا

    مزید پڑھیے

    آخرش

    ہاں ہوا بھی گلابی ہے اب اور موسم بھی کچھ ٹھہرنے سا لگا ہے دھندلکے بھی کچھ اور گہرا گئے ہیں کتابوں کے اوراق مجروح ہونے لگے ہیں لیمپ کی روشنی تیز تلوار ہے اوس میں بھیگتی رات اور عمر میں مجھ سے دونا بڑا ریڈیو چھپکلی کا وہ جوڑا نکل آیا تصویر کے پیچھے اپنے مکاں سے رات کٹ کٹ کے گرنے ...

    مزید پڑھیے

    سفر

    گلابی ہوا اور نیلی اداسی یہ کن جنگلوں کا سفر ہے ہر اک سمت کانٹوں بھری رہ گزر ہے کہاں کھو گئے ہیں گجک کے وہ ٹھیلے وہ جاڑوں کی راتیں دیوالی کے میلے وہ ٹوپی وہ بستے وہ بوڑھے محافظ وہ کیچڑ کے رستے وہ برساتی نالے وہ مدہوش بچے وہ کرتوں کی جیبوں میں امرود کچے وہ پنی کے چشمے وہ مٹی کے ...

    مزید پڑھیے

    احساس

    یہ کمرہ تو پھر سے وہی ہے وہی میں وہی بلب کا ایک جانب سے اکھڑا ہوا ہولڈر بھی مگر آج پھر یہ ہوا اجنبی ہے

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2