تار گھر

عمارت کے باہر
ابھی بھی شکستہ سا اک بورڈ ہے
جس کو کچھ رنگ نے
اتنا بے رنگ کر دیا ہے
کہ اب اس کے الفاظ کو ایک اندازہ بھر سے ہی پڑھتے ہیں ہم
عمارت بتاتی ہے
پہلے کبھی شان تھی
اس کے دیوار و در کی بڑی آن تھی
اب مگر
ایک مدت سے کوئی نہ آیا ادھر
اب خوشی اور غم
تار بابو کے ہاتھوں سے ہو کر گزرتے نہیں
دل دھڑکتے نہیں دل لرزتے نہیں
اب یہاں خاک اڑتی ہے بس گرد ہی گرد ہے
اور مجھے اس عمارت کے ویرانے پن کا بہت درد ہے