سفر
گلابی ہوا اور نیلی اداسی
یہ کن جنگلوں کا سفر ہے
ہر اک سمت کانٹوں بھری رہ گزر ہے
کہاں کھو گئے ہیں گجک کے وہ ٹھیلے
وہ جاڑوں کی راتیں دیوالی کے میلے
وہ ٹوپی وہ بستے
وہ بوڑھے محافظ وہ کیچڑ کے رستے
وہ برساتی نالے وہ مدہوش بچے
وہ کرتوں کی جیبوں میں امرود کچے
وہ پنی کے چشمے وہ مٹی کے برتن
وہ بوسیدہ کڑیوں میں چڑیوں کے مسکن
مگر اب یہ بے معنی بے رنگ منظر
کہ پھولوں کے دامن میں نوکیلے پتھر
حیات مسلسل یہ کیسا سفر ہے
ہر اک سمت کانٹوں بھری رہ گزر ہے