کاش
جو تم ساتھ ہوتے تو میں تم کو رستے کا وہ پہلا پل اور وہ نالہ دکھاتا جہاں پر ہوا اپنے پر کھولتی ہے جہاں دھوپ ہر روز کچھ دیر رک جواں سال کرنوں کے در کھولتی ہے جو تم ساتھ ہوتے
جو تم ساتھ ہوتے تو میں تم کو رستے کا وہ پہلا پل اور وہ نالہ دکھاتا جہاں پر ہوا اپنے پر کھولتی ہے جہاں دھوپ ہر روز کچھ دیر رک جواں سال کرنوں کے در کھولتی ہے جو تم ساتھ ہوتے
میں وہ نہیں ہوں میں ہوں جو شاید میں اپنے ہونے سے کچھ الگ ہوں حیات کی کچھ علامتوں میں نگار جاں کی قباحتوں میں فریب جیسی صداقتوں میں تمام اندھی بصارتوں میں میں خود کو آواز دے رہا ہوں نہ جانے کب سے یہیں کھڑا ہوں مگر میں ہوں کب یہ میرے ہونے کا ایک دھوکہ مجھے بھی حیران کر رہا ہے کہ ...
نہیں آج سگریٹ نہیں آؤ اس موڑ تک ہو کے آئیں وہیں سامنے پل کے اس پار رستوں کے جنگل سے پیچھے وہیں چل کے اک جاوداں قہقہہ تم لگانا چلو یہ بھی اچھا رہا میں کہوں اور پھر تم سے واپس پلٹنے کا اصرار کرنے لگوں سو تم مسکرانے کی زندہ اداکاری کرتے ہوئے لوٹ آنا لوٹ آنا
شاعر تم کتنے بھولے ہو ہنستے ہو تو پھول سا چہرہ کھل اٹھتا ہے اور اگر تم چپ ہوتے ہو سارا جہاں چپ چپ لگتا ہے شاعر تم کو یاد تو ہوگا ایس ایل ٹی کے باہر جب ہم تم ملتے تھے بوٹنی کے باہر کی ہی باتیں کرتے تھے شاعر تم تو بھول چکے ہو گے وہ میلے جن میں لگتے تھے سپنوں وعدوں کے ٹھیلے تم کہتے تھے ...
میں آہٹ پہ چونکا بھلا کون ہوگا دریچے سے باہر کو جھانکا کہیں کچھ نہیں ہے واہمے نے مرے آج پھر مجھ کو بہلا دیا
ساتھی آ جس کی سونی شام ان زندہ شاموں کے نام جن میں تیری سرگوشی نغمہ بن کے ابھری تھی سایہ بن کے بکھر گئی
میں ڈبے کا آخری بسکٹ اس موجود جہاں سے نکل کر اس عالم کی سمت رواں ہوں میرے ساتھی جہاں پہنچ کر میرا رستہ دیکھ رہے ہیں
بہت دیر سے ایک چڑیا میری چھت کی کڑیوں میں بیٹھی ہوئی اپنے بچوں کو دنیا کے آداب سکھلا رہی ہے کہ بہلا رہی ہے سو نہ جا میرے ننھے یوں بھوکے نہ سو ابھی جبکہ بارش رکے گی میں اڑ کر بہت دور سے دانہ لاؤں گی دانہ بہت ڈھیر سا خوب کھائیں گے مل کر ابھی بس ذرا دیر میں دور اونچے گگن میں مگر کالے ...
تم آنا تو کمرے میں بکھری خاموشی کو بھی پڑھنا تنہائی کے نوحے سننا بستر کی ویرانی پر آنسو نہ بہانا سگریٹ کے خالی ڈبوں پر ترس نہ کھانا جگہ جگہ بکھرے پنوں سے اپنا نام مٹا کے رہنا تم آنا تو الماری سے بوسیدہ تصویر اٹھا کر کھڑکی سے باہر کر دینا جگہ جگہ مکڑی کے جالے رہنے دینا تم آنا ...
کوئی قیمت لگانے والا ہو میں بھی نیلام ہونے آیا ہوں اپنے ماضی کے بوجھ ہیں سر پر گھڑیاں بھر بھر کے درد لایا ہوں اے میری بے زبان بے زاری مجھ سے اتنا نہ روٹھ میرے لیے میں نے اپنے حسین لمحوں میں تجھ کو شادابیوں کے خواب دیے اب وہ سب خواب کب کے ٹوٹ چکے سارے احساس ٹوٹ پھوٹ چکے وقت کی بے ...