شمامہ افق کی غزل

    کوئی بھی سامان نہیں ہے اب میری حیرانی کو

    کوئی بھی سامان نہیں ہے اب میری حیرانی کو آتش دان میں پھینک دیا ہے اک خط لکھ کر پانی کو کرداروں کی کھیپ بلا کر کیا تصویر بناؤ گے ایک کہانی سے ڈھانپو کس کس کی عریانی کو ان سے پوچھو جن پر گزرے لمحے اصل قیامت کے لوگ تو ہجرت کہہ دیتے ہیں ہر اک نقل مکانی کو ہم نے جس لمحے سونپے تھے خواب ...

    مزید پڑھیے

    خموش درد تھا روتے ہوئے دلاسے تھے

    خموش درد تھا روتے ہوئے دلاسے تھے نگاہیں ایک طرف اک طرف تماشے تھے مٹانا چاہیں بھی تو کس طرح مٹا پائیں کہ ایک دوسرے کے دل پہ نام لکھے تھے ہمارا مسئلہ جوہڑ کا مسئلہ نہیں تھا ہمارے آنسو تواتر سے بہتے رہتے تھے میں سوچتی ہوں بھلا اس کا کیا بنا جس نے مری طرح کئی خوش رنگ خواب دیکھے ...

    مزید پڑھیے

    رکھے چراغ طاق پر سارے بجھے ہوئے

    رکھے چراغ طاق پر سارے بجھے ہوئے پھر بھی ہوا کے ساتھ مرے معرکے ہوئے پہلے پہل تو اس سے فقط گفتگو ہوئی اور پھر تعلقات بھی اچھے بھلے ہوئے اک دن ہماری لو نے چراغوں کو مات دی لگتے ہیں آپ ٹھیک اسی دن سے جلے ہوئے اس نے کہا تھا آج وہ آئے گا لازماً مرجھا گئے ہیں پھول گلی تک بچھے ہوئے

    مزید پڑھیے

    جسم کو روح کی سرحد پہ بلا کر دیکھیں

    جسم کو روح کی سرحد پہ بلا کر دیکھیں کیوں نہ آئینے کے اندر کبھی جا کر دیکھیں جن کی آنکھوں میں کوئی خواب نہیں ہے وہ لوگ سوکھے پیڑوں سے پرندے ہی اڑا کر دیکھیں خواب ہم دن میں پکڑ لیں کوئی جگنو جیسا بارہا رات میں پھر اس کو جلا کر دیکھیں اس میں گرداب بہاؤ نہ کٹاؤ ہے کہیں کیوں نہ تالاب ...

    مزید پڑھیے

    جوں ہی سر سے چادر سرکی

    جوں ہی سر سے چادر سرکی اونچی ہوئیں فصیلیں گھر کی دیکھ مصور گہرا پانی اور تصویر بنا اندر کی عمر پہ طاری ہو جاتی ہے نبض کبھی اک لمحے بھر کی تاریکی ہی تاریکی ہے بوجھے کون پہیلی ڈر کی سارے آنسو پی جاتی ہے ماں سی عادت ہے چادر کی رستے میں دل ہار آئے ہیں خاک کہیں روداد سفر کی یار ...

    مزید پڑھیے

    ایک آہٹ پہ دل بنا پتا

    ایک آہٹ پہ دل بنا پتا ٹوٹ کر شاخ سے گرا پتا وہ اگر ہارتا تو رو دیتا میں نے تبدیل کر دیا پتا مجھ کو تو نے شجر مزاج کیا اب مری شاخ پر اگا پتا زندگی ہے خزاں میں سوکھا پیڑ اور دعا اس پہ پھوٹتا پتا ڈھیر بھی اک وجود رکھتا ہے ہو جو پتے کا آسرا پتا میں نے پوچھا مزاج کیسے ہیں بس شجر نے ...

    مزید پڑھیے

    کچھ دن سے اٹھ رہی ہے دل و شہر جاں سے خاک

    کچھ دن سے اٹھ رہی ہے دل و شہر جاں سے خاک جب ہم ہرے بھرے ہیں تو آئی کہاں سے خاک پھر بھی یہ دل دھڑک اٹھا اس کی پکار پر گو اس پہ لا کے ڈالی تھی سارے جہاں سے خاک چہرہ اٹا ہے دھول سے خالی ہیں دونوں ہاتھ تم آ رہے ہو چھان کے آخر کہاں سے خاک ہم اس لیے بھی اس سے ملاتے نہیں نظر نسبت زمین کو ہے ...

    مزید پڑھیے

    جو ہو سکے تو میسر ہمیں تمام رہو

    جو ہو سکے تو میسر ہمیں تمام رہو قیام دل میں کرو اور یہیں مدام رہو یہ کوئی بات کہ اس کے ہوئے کبھی اس کے ہمارے ہو تو سراسر ہمارے نام رہو کبھی تو آؤ ہماری رسائی کی حد میں کبھی کبھی تو ہمارے لیے بھی عام رہو بعید کچھ بھی نہیں ہے ہماری بات سنو طناب خیمۂ امکاں ذرا سا تھام رہو نہیں ہے ...

    مزید پڑھیے

    دہشت کے موسم میں کھلنے والے پھول

    دہشت کے موسم میں کھلنے والے پھول پتی پتی بکھرے کون سنبھالے پھول ان ہونٹوں کے لمس میں ایسا جادو ہے آنکھوں پر رکھتے ہی ہو گئے چھالے پھول تتلی تیرا رنگ چرانے آئی ہے خوش رو تتلی کے پریمی متوالے پھول اس کا رستہ دیکھنے والی آنکھوں میں تیرتے رہتے ہیں کچھ منت والے پھول میں نے وصل ...

    مزید پڑھیے

    مصلحت کوش نہ تھے خواب جلانے سے رہے

    مصلحت کوش نہ تھے خواب جلانے سے رہے رات بنتی ہوئی اک بات بنانے سے رہے بزم آئندہ میں کب کون کہاں بیٹھے گا رفتگاں سب کو یہ اسرار بتانے سے رہے تم نے لوٹ آنے کی امید لگائی ہے عبث ہم جو دیوار اٹھا دیں وہ گرانے سے رہے ترے پہلو سے سرکتے ہوئے دل رونے لگا ڈوبنے والے کو تیراک بچانے سے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3