یہ آسماں زمیں کے ہونٹ چومتا ہوا نہ ہو
یہ آسماں زمیں کے ہونٹ چومتا ہوا نہ ہو کسے خبر ہے کل تلک یہاں پہ کیا ہو کیا نہ ہو وہ مجھ سے مل کے بھی کسی سے وصل کی دعا کرے عجیب پیڑ ہے جو پانی پی کے بھی ہرا نہ ہو یہ دستکیں کواڑ پر برس رہی ہیں جس طرح کواڑ ہی کی نبض آشنا کوئی ہوا نہ ہو وہ کم سخن سہی مگر کوئی تو اور بات ہے خموشیوں کی ...