شمامہ افق کی غزل

    جلتے بجھتے ہوئے مکانوں سے

    جلتے بجھتے ہوئے مکانوں سے خوف آتا ہے آسمانوں سے آسماں اور زمین گرنے لگے ایک دوجے کو تھامے شانوں سے یہ نئے لوگ تو حقیقت میں منفرد ہیں بہت پرانوں سے زندگی تیری شاہراہوں پر رونقیں ہیں مری دکانوں سے سانپ ہوتے ہیں آستینوں میں فیض ملتا ہے آستانوں سے تیر الجھتے رہے شکاری کے اپنی ...

    مزید پڑھیے

    کچھ دن سے اٹھ رہی ہے دل و شہر جاں سے خاک

    کچھ دن سے اٹھ رہی ہے دل و شہر جاں سے خاک جب ہم ہرے بھرے ہیں تو آئی کہاں سے خاک پھر بھی یہ دل دھڑک اٹھا اس کی پکار پر گو اس پہ لا کے ڈالی تھی سارے جہاں سے خاک چہرہ اٹا ہے دھول سے خالی ہیں دونوں ہاتھ تم آ رہے ہو چھان کے آخر کہاں سے خاک ہم اس لئے بھی اس سے ملاتے نہیں نظر نسبت زمین کو ہے ...

    مزید پڑھیے

    یوں صبح دکھائیں گے ہم رات کے ماروں کو

    یوں صبح دکھائیں گے ہم رات کے ماروں کو ٹانکیں گے دوپٹے پر ٹوٹے ہوئے تاروں کو آنکھیں ہی نہیں پہلے منظر بھی نیا دینا پھر ریت سے الجھانا ان خواب سواروں کو محراب سے دل اندر گونجی ہے محبت پھر دروازہ نہ کھولا تو ڈھائے گی مناروں کو تا حد نظر ہے اب تا حد نظر پانی طوفان کی آمد اب توڑے گی ...

    مزید پڑھیے

    جو ہو سکے تو میسر ہمیں تمام رہو

    جو ہو سکے تو میسر ہمیں تمام رہو قیام دل میں کرو اور یہیں مدام رہو یہ کوئی بات کہ اس کے ہوئے کبھی اس کے ہمارے ہو تو سراسر ہمارے نام رہو کبھی تو آؤ ہماری رسائی کی حد میں کبھی کبھی تو ہمارے لیے بھی عام رہو بعید کچھ بھی نہیں ہے ہماری بات سنو طناب خیمۂ امکاں ذرا سا تھام رہو نہیں ہے ...

    مزید پڑھیے

    پرانے رستوں پہ کوئی کیا راستہ بنائے

    پرانے رستوں پہ کوئی کیا راستہ بنائے اسے بنانا ہے تو جدا راستہ بنائے میں اس کی تحویل میں دیا کھو چکی ہوں اب تو عجب نہیں خود ہوا مرا راستہ بنائے مجھے یقیں ہے کہ پانیوں پر بھی چل سکوں گی بغیر کشتی بہ زور پا راستہ بنائے میں اپنی حجت تمام کر کے رکی ہوئی ہوں اب اس سے آگے مرا خدا راستہ ...

    مزید پڑھیے

    سلجھی ہوئی پہیلی کا الجھاؤ دیکھ کر

    سلجھی ہوئی پہیلی کا الجھاؤ دیکھ کر حیران ہوں میں اب ترا برتاؤ دیکھ کر قسمت کی بات اور ہے لیکن حقیقتاً دریا سے خوف آتا نہیں ناؤ دیکھ کر ہم حسن اشک ہجر ہرے زخم لائے ہیں آؤ خرید لو کوئی غم بھاؤ دیکھ کر یہ دل ہے میرا دل کوئی ان کی دکاں نہیں بکھرے پڑے ہیں جا بہ جا خواب آؤ دیکھ کر اس ...

    مزید پڑھیے

    ستارہ ہو کہ آنسو بس چمک ہے

    ستارہ ہو کہ آنسو بس چمک ہے لگا لے شرط مجھ سے جس کو شک ہے کہاں تک آپ کو جانا ہے کہیے نظر کا راستہ تو دل تلک ہے تلاطم خیز کر دے ان کی دھڑکن مری چوڑی میں ایسی بھی کھنک ہے محبت سے اسے منسوب مت کر مرے لہجے میں جو تھوڑی لچک ہے میں اتنی دور بھی تم سے نہیں ہوں ہمارے درمیاں کچھ ہے تو شک ...

    مزید پڑھیے

    کسی روشنی کے حصار میں نہیں چل رہا

    کسی روشنی کے حصار میں نہیں چل رہا وہ دیا بدست غبار میں نہیں چل رہا یہ اتھل پتھل جو مچی ہوئی ہے چہار سو کوئی ایک ٹھیک قطار میں نہیں چل رہا یہی بارشیں تو ہیں تیری یاد کی مہتمم مگر اک رکارڈ پھوار میں نہیں چل رہا مرے پاس آ کے رکا ہوا ہے وہ دور ہی یہ خزاں کا دور بہار میں نہیں چل رہا

    مزید پڑھیے

    یہ آسماں زمیں کے ہونٹ چومتا ہوا نہ ہو

    یہ آسماں زمیں کے ہونٹ چومتا ہوا نہ ہو کسے خبر ہے کل تلک یہاں پہ کیا ہو کیا نہ ہو وہ مجھ سے مل کے بھی کسی سے وصل کی دعا کرے عجیب پیڑ ہے جو پانی پی کے بھی ہرا نہ ہو یہ دستکیں کواڑ پر برس رہی ہیں جس طرح کواڑ ہی کی نبض آشنا کوئی ہوا نہ ہو وہ کم سخن سہی مگر کوئی تو اور بات ہے خموشیوں کی ...

    مزید پڑھیے

    نہ پرکشش ہے نہ آشنا ہے

    نہ پرکشش ہے نہ آشنا ہے مگر وہ چہرہ بھلا لگا ہے ہرے جزیرے پہ زرد بادل ہواؤں کو آج کیا ہوا ہے کسی کی آنکھوں میں رات ٹھہری کسی کی راتوں میں دن گھلا ہے تری اداسی کا یہ دبستاں کہیں کہیں سے جلا ہوا ہے ہواؤ بوندوں کو راستہ دو زمیں کا سینہ چٹخ رہا ہے مری محبت کا سبز موسم تری کمی میں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3