مصلحت کوش نہ تھے خواب جلانے سے رہے

مصلحت کوش نہ تھے خواب جلانے سے رہے
رات بنتی ہوئی اک بات بنانے سے رہے


بزم آئندہ میں کب کون کہاں بیٹھے گا
رفتگاں سب کو یہ اسرار بتانے سے رہے


تم نے لوٹ آنے کی امید لگائی ہے عبث
ہم جو دیوار اٹھا دیں وہ گرانے سے رہے


ترے پہلو سے سرکتے ہوئے دل رونے لگا
ڈوبنے والے کو تیراک بچانے سے رہے


ہم سے ہوتی نہیں تشہیر تعلق بے کار
قیمتی شے سر دیوار سجانے سے رہے


اپنی دلچسپی کا سامان نہیں تھی دنیا
ہم یہاں ٹھہرے مگر تیرے بہانے سے رہے