جسم کو روح کی سرحد پہ بلا کر دیکھیں

جسم کو روح کی سرحد پہ بلا کر دیکھیں
کیوں نہ آئینے کے اندر کبھی جا کر دیکھیں


جن کی آنکھوں میں کوئی خواب نہیں ہے وہ لوگ
سوکھے پیڑوں سے پرندے ہی اڑا کر دیکھیں


خواب ہم دن میں پکڑ لیں کوئی جگنو جیسا
بارہا رات میں پھر اس کو جلا کر دیکھیں


اس میں گرداب بہاؤ نہ کٹاؤ ہے کہیں
کیوں نہ تالاب میں اک اشک گرا کر دیکھیں


اس سے پہلے کہ خموشی ہی سی دم گھٹنے لگے
ٹوٹتی سانس کی زنجیر ہلا کر دیکھیں