کوئی بھی سامان نہیں ہے اب میری حیرانی کو

کوئی بھی سامان نہیں ہے اب میری حیرانی کو
آتش دان میں پھینک دیا ہے اک خط لکھ کر پانی کو


کرداروں کی کھیپ بلا کر کیا تصویر بناؤ گے
ایک کہانی سے ڈھانپو کس کس کی عریانی کو


ان سے پوچھو جن پر گزرے لمحے اصل قیامت کے
لوگ تو ہجرت کہہ دیتے ہیں ہر اک نقل مکانی کو


ہم نے جس لمحے سونپے تھے خواب بلوریں آنکھوں کو
کوس رہے ہیں اب تک ہم اس لمحے کی نادانی کو


جس چشمے سے پانی پینا اس کا سودا کر دینا
غداری کہتے ہیں بھائی ایسی بے ایمانی کو


گھور رہا ہے میرا دل کب سے اک خالی پنجرے کو
زنداں سے آواز آتی ہے آ جاؤ زندانی کو


کیسے تنہا کمرے سے اٹھ کر بازار میں آ جائیں
مشکل سے یاد کیا ہے ہم نے اس ویرانی کو