جوں ہی سر سے چادر سرکی

جوں ہی سر سے چادر سرکی
اونچی ہوئیں فصیلیں گھر کی


دیکھ مصور گہرا پانی
اور تصویر بنا اندر کی


عمر پہ طاری ہو جاتی ہے
نبض کبھی اک لمحے بھر کی


تاریکی ہی تاریکی ہے
بوجھے کون پہیلی ڈر کی


سارے آنسو پی جاتی ہے
ماں سی عادت ہے چادر کی


رستے میں دل ہار آئے ہیں
خاک کہیں روداد سفر کی


یار شمامہؔ دیکھ سنبھل کر
کانچ ہے تو دنیا پتھر کی