شعیب زمان کی غزل

    دشت ہوتے ہوئے برسات نہیں چاہتے ہم

    دشت ہوتے ہوئے برسات نہیں چاہتے ہم یعنی اپنے بھی مفادات نہیں چاہتے ہم ہونٹ سگریٹ کی طلب کرتے چلے جاتے ہیں اور اس کے مضر اثرات نہیں چاہتے ہم راس یکتائی بہت آئی ہوئی ہے ہم کو قید ہو کر بھی ملاقات نہیں چاہتے ہم جو کئی شہروں کے مٹنے کا سبب ہو جائیں دوستا ایسی فتوحات نہیں چاہتے ...

    مزید پڑھیے

    ضرورت سے زیادہ جی رہا ہے

    ضرورت سے زیادہ جی رہا ہے ادھورا شخص پورا جی رہا ہے ہے بارش کی مسلسل مہربانی مرے صحرا میں دریا جی رہا ہے در و دیوار سانسیں لے رہے ہیں تبھی کمرے کا پردہ جی رہا ہے بسا ہے تو مری آنکھوں میں جب سے یہاں رنگوں کا میلہ جی رہا ہے سبھی ہاتھوں میں اپنے پھول دے کر خوشی کے ساتھ گملا جی رہا ...

    مزید پڑھیے

    رائگانی کی ریاضت بھی نہیں کر سکتا

    رائگانی کی ریاضت بھی نہیں کر سکتا ٹوٹے رشتوں کی مرمت بھی نہیں کر سکتا گھر کی رونق کا سبب ہوتے ہیں بچے یعنی شور ہونے پہ شکایت بھی نہیں کر سکتا جس طرح میں نے ترے نام کیا ہے سب کچھ اس طرح کوئی وصیت بھی نہیں کر سکتا کیمرہ آنکھ میں زندان لیے پھرتا ہے کوئی تصویر سے ہجرت بھی نہیں کر ...

    مزید پڑھیے

    مری تکلیف اعصابی کہاں ہے

    مری تکلیف اعصابی کہاں ہے یہ بے داری ہے بے خوابی کہاں ہے مجھے آزاد کرنا ہے کسی کو مرے زندان کی چابی کہاں ہے یہ ہم جو ساحلوں پر چل رہے ہیں خبر رکھتے ہیں غرقابی کہاں ہے ہرے ہیں پیڑ نہروں کے کنارے مری پلکوں کی شادابی کہاں ہے برائے سیر آئے باغ میں ہم شجرکاری کی بیتابی کہاں ہے

    مزید پڑھیے

    دھڑکن ہو کر دل سے سازش کرتا ہوں

    دھڑکن ہو کر دل سے سازش کرتا ہوں اور پھر جینے کی فرمائش کرتا ہوں اے خالق قسمت کا تارا چمکا دے روز سمے کے جوتے پالش کرتا ہوں گندم کا ہر دانہ پانی پیتا ہے میں محنت کی اتنی بارش کرتا ہوں تم بھی تھوڑے اور کھلونے لے جاؤ میں بھی تھوڑی سی گنجائش کرتا ہوں موسم اور یہ لوگ مجھے کچھ مہلت ...

    مزید پڑھیے

    وہی میری خوشی کا مسئلہ ہے

    وہی میری خوشی کا مسئلہ ہے جو صحرا میں نمی کا مسئلہ ہے شجر بھی تو زمیں کے پھیپھڑے ہیں نہ کاٹو زندگی کا مسئلہ ہے ترا چہرہ ہے دھند آلود یوں بھی بصارت میں کمی کا مسئلہ ہے ہمیں مشکوک نظروں سے نہ دیکھیں محبت تو سبھی کا مسئلہ ہے نکل آئی ہے منہ سے بات ایسی کہ جس کی واپسی کا مسئلہ ...

    مزید پڑھیے

    دیا اپنی روش پر کیا گیا ہے

    دیا اپنی روش پر کیا گیا ہے ہوا کا ہاتھ بھی گھبرا گیا ہے تمہارے پھول مجھ تک آ گئے ہیں مگر یوں بھیجنا چونکا گیا ہے ہمارے خواب بے پردہ ہوئے ہیں ہماری آنکھ میں جھانکا گیا ہے تڑپ کر آنگنوں میں دھوپ بکھری گلا برگد کا پھر کاٹا گیا ہے سڑک پر شور اور بھگدڑ مچا کر مری آواز کو کچلا گیا ...

    مزید پڑھیے

    سلامتی کی دعا کا ثمر بنا ہوا ہے

    سلامتی کی دعا کا ثمر بنا ہوا ہے تمہارے باغ کا پودا شجر بنا ہوا ہے وہ جس کے واسطے پھولوں کا اہتمام ہوا فضائے دل سے وہی بے خبر بنا ہوا ہے ملے جو کوئی مجھے دل چرانے لگ جائے تمام شہر ترا جادوگر بنا ہوا ہے عجیب بات ہے دل بھی وہیں پہ ٹوٹے ہیں ہر ایک شخص جہاں کاریگر بنا ہوا ہے کہیں پہ ...

    مزید پڑھیے

    کب محبت سے دیکھتے ہیں مجھے

    کب محبت سے دیکھتے ہیں مجھے سب ضرورت سے دیکھتے ہیں مجھے میرا نیندوں کے ساتھ جھگڑا ہے خواب حسرت سے دیکھتے ہیں مجھے جنگ جیتی ہے کیسے خوشبو سے پھول حیرت سے دیکھتے ہیں مجھے میں تو ان سے بھی پیار کرتا ہوں جو حقارت سے دیکھتے ہیں مجھے سارے تریاک پاس ہیں میرے سانپ نفرت سے دیکھتے ہیں ...

    مزید پڑھیے

    در و دیوار سے جاری لہو ہے

    در و دیوار سے جاری لہو ہے تری تصویر کا دکھ سرخ رو ہے بچھے ہیں دور تک پتے زمیں پر یہ خاموشی نہیں ہے ہاؤ ہو ہے خوشا آنکھوں میں جنگل ہیں تمہاری بھٹکنے کی مجھے بھی آرزو ہے جسے چٹکی بجانا کہہ رہے ہو ہماری انگلیوں کی گفتگو ہے کوئی تو آئے چھیڑے ذکر تیرا سماعت کب سے میری با وضو ہے

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2