ضرورت سے زیادہ جی رہا ہے

ضرورت سے زیادہ جی رہا ہے
ادھورا شخص پورا جی رہا ہے


ہے بارش کی مسلسل مہربانی
مرے صحرا میں دریا جی رہا ہے


در و دیوار سانسیں لے رہے ہیں
تبھی کمرے کا پردہ جی رہا ہے


بسا ہے تو مری آنکھوں میں جب سے
یہاں رنگوں کا میلہ جی رہا ہے


سبھی ہاتھوں میں اپنے پھول دے کر
خوشی کے ساتھ گملا جی رہا ہے


نکل بھی آ وہاں تو چاند بن کر
جو تیرے بن علاقہ جی رہا ہے