شعیب زمان کی غزل

    سیلاب کا گزر بھی تو لوگوں کی موت ہے

    سیلاب کا گزر بھی تو لوگوں کی موت ہے دریا کا بانجھ پن جہاں نہروں کی موت ہے کچھ بھی تو کہنا روبرو بہروں کے ہے فضول جیسے خلا میں چیخنا چیخوں کی موت ہے رستہ سڑک تلک نہ مسافر کو دیں اگر میرے خیال میں تو یہ گلیوں کی موت ہے آنکھوں سے نیند کے سبھی آثار گمشدہ شب بھر ہمارا جاگنا خوابوں کی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2