مری تکلیف اعصابی کہاں ہے
مری تکلیف اعصابی کہاں ہے
یہ بے داری ہے بے خوابی کہاں ہے
مجھے آزاد کرنا ہے کسی کو
مرے زندان کی چابی کہاں ہے
یہ ہم جو ساحلوں پر چل رہے ہیں
خبر رکھتے ہیں غرقابی کہاں ہے
ہرے ہیں پیڑ نہروں کے کنارے
مری پلکوں کی شادابی کہاں ہے
برائے سیر آئے باغ میں ہم
شجرکاری کی بیتابی کہاں ہے