دیا اپنی روش پر کیا گیا ہے

دیا اپنی روش پر کیا گیا ہے
ہوا کا ہاتھ بھی گھبرا گیا ہے


تمہارے پھول مجھ تک آ گئے ہیں
مگر یوں بھیجنا چونکا گیا ہے


ہمارے خواب بے پردہ ہوئے ہیں
ہماری آنکھ میں جھانکا گیا ہے


تڑپ کر آنگنوں میں دھوپ بکھری
گلا برگد کا پھر کاٹا گیا ہے


سڑک پر شور اور بھگدڑ مچا کر
مری آواز کو کچلا گیا ہے


کسی کے ہاتھ کاٹے جا رہے ہیں
کسی کے کان سے جھمکا گیا ہے


دیے کی بھوک جنگل کھا گئی ہے
اندھیرا دور تک روتا گیا ہے


تمہارا تتلیوں پر وار کرنا
ہمارے پھول بھی زخمہ گیا ہے