مقبرہ بن جائے خود معمار کا
مقبرہ بن جائے خود معمار کا
کیا بھروسہ ریت کی دیوار کا
کس طرف اٹھے قدم کس کو غرض
شہر میں چرچا رہا رفتار کا
غم زدہ تو مطمئن سا تھا مگر
کس نے سمجھا غم کسی غم خوار کا
میں ہوں اور ہر ذرۂ صحرا کا غم
تو ہے اور ماتم در و دیوار کا
رابطہ رکھئے ہر اک فن کار سے
شعر کہئے اپنے ہی معیار کا
اس سمندر میں گھرے ہیں ہم جہاں
کشتیوں پر بوجھ ہے پتوار کا
لہر جب اٹھے صدف ساحل پہ لائے
کوئی موقع بھی تو ہو اظہار کا
خامۂ بے روشنائی بھی ہوں میں
منتظر بھی ہوں کسی شہکار کا
مہر عالم تاب سر پر آ گیا
بجھ گیا سایا ہر اک دیوار کا
کوئی چہرہ ہو کہ ہو کوئی کتاب
سب پہ ہے جادو سمندر پار کا