دیواروں میں در رکھتے ہیں

دیواروں میں در رکھتے ہیں
روشن ہر منظر رکھتے ہیں


سیج سجاتے ہیں پھولوں کی
کانٹوں کا بستر رکھتے ہیں


اپنے اندر سو ہنگامے
گم گم بام و در رکھتے ہیں


دیواریں ہیں قدم قدم پر
جس بستی میں گھر رکھتے ہیں


کچھ بھی ہوں چیزوں کی شکلیں
ہم بھی ایک نظر رکھتے ہیں


گرمی سردی کا اندازہ
بے گھر ہی بہتر رکھتے ہیں


اپنی خاک میں ہم بھی کیا کیا
پتے پھول شجر رکھتے ہیں