حواس میں وہ رہا ہو کہ بد حواس بہت

حواس میں وہ رہا ہو کہ بد حواس بہت
ہر آدمی کو بدلنے پڑے لباس بہت


تھکن سے چور بدن دشت یاس و تنہائی
اندھیری رات ندی دور اور پیاس بہت


شراب خانے کا سادہ سا اک اصول یہ ہے
جسے شراب میسر اسے گلاس بہت


قدم قدم نظر آتے ہیں موت کے سائے
ہمارے دشت سے شہروں میں ہے ہراس بہت


بہر عمل ابھی رد عمل ضروری ہے
سخن شناس کوئی ہو کہ نا شناس بہت