موتی موتی ٹٹولتے رہیے

موتی موتی ٹٹولتے رہیے
ایک اک لفظ تولتے رہیے


بند کیجے کبھی دریچوں کو
کبھی دروازے کھولتے رہیے


کیوں سر انجمن رہے خاموش
اب اکیلے میں بولتے رہیے


شہر کی دل کشی میں کیا شک ہے
جیب کو بھی ٹٹولتے رہیے


بچ گئے ہیں اگر سمندر سے
اپنی لہروں میں ڈولتے رہیے