جنون شوق میں اپنی گرہ سے کیا نہ گیا

جنون شوق میں اپنی گرہ سے کیا نہ گیا
یہ اور بات کہ اب تک وہ حوصلا نہ گیا


غبار راہ تھے برسا جوں ہی سحاب کرم
کچھ ایسے بیٹھ گئے ہم کہ پھر اٹھا نہ گیا


یہ حادثہ ہے کہ افسانۂ غم ہستی
کہیں کہا نہ گیا اور کہیں سنا نہ گیا


کہاں کہاں اسے دیکھوں کہاں کہاں جاؤں
تلاش کو وہ کوئی دائرہ بنا نہ گیا


کہاں کہاں نہ اندھیروں نے راستہ روکا
مگر یہ شوق کہاں مشعلیں جلا نہ گیا


نہ ہو سکے مری راہوں میں فاصلے حائل
جہاں میں خود نہ گیا تھا مرا فسانہ گیا