Sahartab Roomani

سحرتاب رومانی

سحرتاب رومانی کی غزل

    کیا کبھی ان سے بات کی ہے

    کیا کبھی ان سے بات کی ہے جی بڑی احتیاط کی ہے تم کبھی دن کو مت سنانا وہ کہانی جو رات کی ہے زندگی نے سوال پوچھا کوئی صورت نجات کی ہے ڈھل گیا ہے شباب اس کا ورنہ وہ میرے ساتھ کی ہے تو سمجھتا ہے صرف تو نے صرف تو نے حیات کی ہے

    مزید پڑھیے

    جب تلک دل امام تھا ہی نہیں

    جب تلک دل امام تھا ہی نہیں کوئی عالی مقام تھا ہی نہیں مستقل ایک بے ثباتی ہے کچھ یہاں پر مدام تھا ہی نہیں آؤ اس کا خطاب سنتے ہیں وہ جو محو کلام تھا ہی نہیں چلتے چلتے میں آ گیا ہوں یہاں ورنہ تجھ سے تو کام تھا ہی نہیں پی رہا تھا میں اس کی آنکھوں سے میکدے میں تو جام تھا ہی نہیں اپنی ...

    مزید پڑھیے

    یہ طے ہے میں اپنے مطابق نہیں تھا

    یہ طے ہے میں اپنے مطابق نہیں تھا تو کیا زندگی کے موافق نہیں تھا نئی تو یہاں ایک شے بھی نہیں تھی مگر کچھ یہاں حسب سابق نہیں تھا تمہاری ہر اک بات جھوٹی بھی سچ ہے مرے دوستو میں ہی صادق نہیں تھا کسی کی نظر کار فرما تھی مجھ میں مقلد رہا ہوں محقق نہیں تھا تھا شہر محبت محبت سے ...

    مزید پڑھیے

    ہجرت بھی وہی نقل مکانی بھی وہی ہے

    ہجرت بھی وہی نقل مکانی بھی وہی ہے ہم خانہ بدوشوں کی کہانی بھی وہی ہے یہ شاعری کرنا کوئی آسان ہے یارو جو بات چھپانی ہے بتانی بھی وہی ہے کمرے میں ترے ہجر کے جالے بھی وہی ہیں دیوار پہ تصویر پرانی بھی وہی ہے گھر بھی ہے ابھی تک تری خوشبو سے معطر آنگن میں مرے رات کی رانی بھی وہی ...

    مزید پڑھیے

    خامشی سے کہو ذرا خاموش

    خامشی سے کہو ذرا خاموش سن رہا ہے مرا خدا خاموش ایک میں ہی تھا بولنے والا وہ بھی تو نے کرا دیا خاموش کر رہی تھی کلام خاموشی اس لیے ہونا پڑ گیا خاموش میں نے دیکھا ہے لوگ ہوتے ہیں اس سے کر کے مکالمہ خاموش زندگی کی یہی کہانی ہے ابتدا شور انتہا خاموش گفتگو کرنی تھی مجھے لیکن میں ...

    مزید پڑھیے

    اگر مزاج ہی میں گرد گرد ہونا تھا

    اگر مزاج ہی میں گرد گرد ہونا تھا تو پھر جناب کو صحرا نورد ہونا تھا اسے پسند بہت نیلے والے پتھر ہیں مجھے عقیق نہیں لاجورد ہونا تھا تمہیں یہ شہر بسانے کی کیا ضرورت تھی تمہیں تو اپنے قبیلے کا فرد ہونا تھا یہ ایک سوچ مسلسل جلا رہی تھی مجھے مرے خیال کے موسم کو سرد ہونا تھا سحرؔ ...

    مزید پڑھیے

    بات کی جب عشق نے تہذیب کی

    بات کی جب عشق نے تہذیب کی تیرے غم میں روز اک تقریب کی زندگی کو نظم کرنے کے لیے میں نے ہر حربے سے اک ترتیب کی چل پڑا پھر سلسلہ تعمیر کا کچھ نہیں بس تھوڑی سی تخریب کی بھول جانا چاہتے تھے سو اسے یاد کرنے کی کوئی ترکیب کی پہلے اپنے آپ کو سچا کہا اور پھر ہر بات کی تکذیب کی سارے قصے ...

    مزید پڑھیے

    تیری دستک کی آس دروازے

    تیری دستک کی آس دروازے شام سے ہیں اداس دروازے پھر بھی باہر قدم نہیں رکھا تھے مرے آس پاس دروازے اس کے آنگن میں جا کے کھلتے ہیں میری قسمت کے خاص دروازے کوئی آواز سن نہیں سکتا جب کہ لیتے ہیں سانس دروازے اس کے گھر میں خموش دیواریں میرے گھر میں اداس دروازے اس گلی کی طرف نہیں ...

    مزید پڑھیے

    یار دنیا تو فقط دو حرف کی ہے

    یار دنیا تو فقط دو حرف کی ہے بات لیکن آدمی کے ظرف کی ہے تم اسے پل میں سمجھنا چاہتے ہو میں نے آدھی عمر اپنی صرف کی ہے اس سے آگے اب مناظر دھوپ کے ہیں اور مرے ہاتھوں میں چھتری برف کی ہے سن رہا ہوں آج پھر آہٹ تری میں کانوں میں آواز بھی اس ظرف کی ہے کتنے پر تاثیر ہیں الفاظ پھر بھی کچھ ...

    مزید پڑھیے

    دین داری کر رہے تھے

    دین داری کر رہے تھے ہوشیاری کر رہے تھے لوگ اپنے ہلکے پن سے خود کو بھاری کر رہے تھے لازمی ہر کام اپنا اختیاری کر رہے تھے پھول جیسے لوگ ہم پر سنگ باری کر رہے تھے جمع ٹوٹے خواب کی بس ریز گاری کر رہے تھے چاہتے تھے جو نہ رونا آہ و زاری کر رہے تھے اونچے قد کے سائے مجھ میں خوف طاری ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2