Sahartab Roomani

سحرتاب رومانی

سحرتاب رومانی کی غزل

    ربط پیدا ہو گیا تھا

    ربط پیدا ہو گیا تھا دشت دریا ہو گیا تھا وقت کے اس آئنے میں عکس بوڑھا ہو گیا تھا عمر آدھی رہ گئی تھی کام دگنا ہو گیا تھا میں حقیقی زندگی میں خواب جیسا ہو گیا تھا لوگ مل کر جا رہے تھے وقت پورا ہو گیا تھا درد باقی تھا بدن میں زخم اچھا ہو گیا تھا بات پوری ہو چکی تھی ذہن چورا ہو گیا ...

    مزید پڑھیے

    بزم جہان شوق کا محور بھی میں ہی تھا

    بزم جہان شوق کا محور بھی میں ہی تھا اوراق دل پہ حرف مکرر بھی میں ہی تھا جتنے بھی عکس تھے مرے اطراف میرے تھے اندر بھی آئنے کے میں باہر بھی میں ہی تھا برسوں سے جس پہ کوئی بھی دستک نہیں ہوئی اس شہر بے چراغ میں وہ در بھی میں ہی تھا میں نے ہی اس کے حسن کو بخشی تھی دل کشی اس پیکر جمال کا ...

    مزید پڑھیے

    میکدے سے ایاغ لے آئے

    میکدے سے ایاغ لے آئے ہم بھی اپنا سراغ لے آئے کچھ نہیں بس تمہاری محفل سے بد گمانی کے داغ لے آئے بات دل کی تھی دل سے ہو جاتی بیچ میں تم دماغ لے آئے خانۂ دل میں روشنی کے لیے ہم فلک سے چراغ لے آئے ہم نکل کر حصار جاں سے سحرؔ زندگی میں فراغ لے آئے

    مزید پڑھیے

    تیرا آنچل نہیں ہوتا ہے

    تیرا آنچل نہیں ہوتا ہے ابر بادل نہیں ہوتا ہے بارشیں تو بہت ہوتی ہیں دشت جل تھل نہیں ہوتا ہے مستقل ہے یہ کیسی کمی کچھ مکمل نہیں ہوتا ہے زندگی جب تلک رہتی ہے مسئلہ حل نہیں ہوتا ہے صرف اس کے شجر ہوتے ہیں صبر کا پھل نہیں ہوتا ہے ایک جنگل نظر آنے سے شہر جنگل نہیں ہوتا ہے اس کو ...

    مزید پڑھیے

    شاعری میں نئی جہت رکھی

    شاعری میں نئی جہت رکھی میں نے اپنی الگ لغت رکھی کوئی تعمیر کس طرح ہوتی ساری بنیاد تھی غلط رکھی مجھ کو بخشا نہیں کمال کوئی اس نے مجھ میں یہی صفت رکھی مال خیرات کر دیا سارا صرف کشکول میں بچت رکھی اس نے چاہا غلام بن جاؤں سامنے میرے سلطنت رکھی پہلے پہلی پرت بچھائی اور اور پھر ...

    مزید پڑھیے

    بجھے چراغ سے مہتاب دیکھ سکتا ہوں

    بجھے چراغ سے مہتاب دیکھ سکتا ہوں میں اپنے خواب میں یہ خواب دیکھ سکتا ہوں میں اپنی آنکھ کے اجڑے ہوئے دیاروں سے کسی بھی دشت کو شاداب دیکھ سکتا ہوں تمہاری یاد کے ٹھہرے ہوئے سمندر میں چھپے ہوئے ہیں جو گرداب دیکھ سکتا ہوں میں اس زمانے کی رنگینیوں کو پل بھر میں جمال یار میں غرقاب ...

    مزید پڑھیے

    زندگی کے طلسم پڑھ رہا ہوں

    زندگی کے طلسم پڑھ رہا ہوں قفل کھلنے کا اسم پڑھ رہا ہوں حسن پر بعد میں کروں گا بات میں ابھی تیرا جسم پڑھ رہا ہوں کیوں نہ ٹوٹے گا نفرتوں کا فسوں میں محبت کا اسم پڑھ رہا ہوں اس کی آنکھوں میں ہیں چھپے جو راز ان کا سارا طلسم پڑھ رہا ہوں آدمی کے کئی ہیں روپ سحرؔ اس لیے قسم قسم پڑھ رہا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2