یہ طے ہے میں اپنے مطابق نہیں تھا

یہ طے ہے میں اپنے مطابق نہیں تھا
تو کیا زندگی کے موافق نہیں تھا


نئی تو یہاں ایک شے بھی نہیں تھی
مگر کچھ یہاں حسب سابق نہیں تھا


تمہاری ہر اک بات جھوٹی بھی سچ ہے
مرے دوستو میں ہی صادق نہیں تھا


کسی کی نظر کار فرما تھی مجھ میں
مقلد رہا ہوں محقق نہیں تھا


تھا شہر محبت محبت سے خالی
وہاں آج بھی تیرا عاشق نہیں تھا


فقط بھوک ہی پنجے گاڑے کھڑی تھی
بہت ساری جگہوں پہ رازق نہیں تھا


سحرؔ وہ سراپا میں لکھتا بھی کیسے
کوئی لفظ بھی اس کے لائق نہیں تھا