ہجرت بھی وہی نقل مکانی بھی وہی ہے

ہجرت بھی وہی نقل مکانی بھی وہی ہے
ہم خانہ بدوشوں کی کہانی بھی وہی ہے


یہ شاعری کرنا کوئی آسان ہے یارو
جو بات چھپانی ہے بتانی بھی وہی ہے


کمرے میں ترے ہجر کے جالے بھی وہی ہیں
دیوار پہ تصویر پرانی بھی وہی ہے


گھر بھی ہے ابھی تک تری خوشبو سے معطر
آنگن میں مرے رات کی رانی بھی وہی ہے


آنکھوں میں ترا عکس لیے پیڑ کھڑے ہیں
رستہ یہ وہی ہے یہ نشانی بھی وہی ہے


بدلا نہیں کچھ بھی ہے وہی دشت نوردی
اور عشق کے دریا کی روانی بھی وہی ہے


محفل میں تجھے دیکھ کے خاموش ہوا ہوں
ورنہ تو مری زود بیانی بھی وہی ہے


اک شخص نے کیا مجھ کو خریدا کہ سحرؔ میں
ارزاں ہوا ایسا کہ گرانی بھی وہی ہے