یار دنیا تو فقط دو حرف کی ہے
یار دنیا تو فقط دو حرف کی ہے
بات لیکن آدمی کے ظرف کی ہے
تم اسے پل میں سمجھنا چاہتے ہو
میں نے آدھی عمر اپنی صرف کی ہے
اس سے آگے اب مناظر دھوپ کے ہیں
اور مرے ہاتھوں میں چھتری برف کی ہے
سن رہا ہوں آج پھر آہٹ تری میں
کانوں میں آواز بھی اس ظرف کی ہے
کتنے پر تاثیر ہیں الفاظ پھر بھی
کچھ کمی لہجے میں اس کے ظرف کی ہے