بات کی جب عشق نے تہذیب کی
بات کی جب عشق نے تہذیب کی
تیرے غم میں روز اک تقریب کی
زندگی کو نظم کرنے کے لیے
میں نے ہر حربے سے اک ترتیب کی
چل پڑا پھر سلسلہ تعمیر کا
کچھ نہیں بس تھوڑی سی تخریب کی
بھول جانا چاہتے تھے سو اسے
یاد کرنے کی کوئی ترکیب کی
پہلے اپنے آپ کو سچا کہا
اور پھر ہر بات کی تکذیب کی
سارے قصے ہیں تری تمثیل کے
ساری باتیں ہیں فقط تشبیب کی
آنکھ بھی بے نور ہو جاتی مگر
دل نے اس کے خواب کی ترغیب کی