تیری دستک کی آس دروازے

تیری دستک کی آس دروازے
شام سے ہیں اداس دروازے


پھر بھی باہر قدم نہیں رکھا
تھے مرے آس پاس دروازے


اس کے آنگن میں جا کے کھلتے ہیں
میری قسمت کے خاص دروازے


کوئی آواز سن نہیں سکتا
جب کہ لیتے ہیں سانس دروازے


اس کے گھر میں خموش دیواریں
میرے گھر میں اداس دروازے


اس گلی کی طرف نہیں جانا
ہیں وہاں بے لباس دروازے


ٹھیک ہے بند ہی رکھو ہم پر
شہر کے بد حواس دروازے


میں ترے دکھ کو بھی سمجھتا ہوں
اے مرے غم شناس دروازے


میں نے گھر میں رکھے سحرؔ لیکن
مجھ کو آئے نہ راس دروازے