خامشی سے کہو ذرا خاموش
خامشی سے کہو ذرا خاموش
سن رہا ہے مرا خدا خاموش
ایک میں ہی تھا بولنے والا
وہ بھی تو نے کرا دیا خاموش
کر رہی تھی کلام خاموشی
اس لیے ہونا پڑ گیا خاموش
میں نے دیکھا ہے لوگ ہوتے ہیں
اس سے کر کے مکالمہ خاموش
زندگی کی یہی کہانی ہے
ابتدا شور انتہا خاموش
گفتگو کرنی تھی مجھے لیکن
میں تری بزم سے اٹھا خاموش
کرب ہی کرب سہ رہا ہوں میں
پاؤں زنجیر راستہ خاموش