دین داری کر رہے تھے

دین داری کر رہے تھے
ہوشیاری کر رہے تھے


لوگ اپنے ہلکے پن سے
خود کو بھاری کر رہے تھے


لازمی ہر کام اپنا
اختیاری کر رہے تھے


پھول جیسے لوگ ہم پر
سنگ باری کر رہے تھے


جمع ٹوٹے خواب کی بس
ریز گاری کر رہے تھے


چاہتے تھے جو نہ رونا
آہ و زاری کر رہے تھے


اونچے قد کے سائے مجھ میں
خوف طاری کر رہے تھے


تم ہی آدھی کر رہے ہو
ہم تو ساری کر رہے تھے


کر رہے تھے شاعری اور
آبشاری کر رہے تھے