جب تلک دل امام تھا ہی نہیں

جب تلک دل امام تھا ہی نہیں
کوئی عالی مقام تھا ہی نہیں


مستقل ایک بے ثباتی ہے
کچھ یہاں پر مدام تھا ہی نہیں


آؤ اس کا خطاب سنتے ہیں
وہ جو محو کلام تھا ہی نہیں


چلتے چلتے میں آ گیا ہوں یہاں
ورنہ تجھ سے تو کام تھا ہی نہیں


پی رہا تھا میں اس کی آنکھوں سے
میکدے میں تو جام تھا ہی نہیں


اپنی اپنی نماز تھی سب کی
مسجدوں میں امام تھا ہی نہیں


وہ بھی دل کے پتے پہ آیا ہے
خط ہمارے جو نام تھا ہی نہیں


میں مسافر تھا اپنی راہوں کا
راستوں کا غلام تھا ہی نہیں


روز جلتا تھا طاق جاں میں سحرؔ
اور پھر ایک شام تھا ہی نہیں