Saeed Shahidi

سعید شہیدی

  • 1914 - 2000

سعید شہیدی کی غزل

    غم دل کو بہار بے خزاں کہنا ہی پڑتا ہے

    غم دل کو بہار بے خزاں کہنا ہی پڑتا ہے محبت کو حیات جاوداں کہنا ہی پڑتا ہے نگاہیں حال دل کی ترجمانی کر ہی دیتی ہیں خموشی کو بھی اک دن داستاں کہنا ہی پڑتا ہے غبار راہ رہ جاتا ہے پیچھے چھوٹ کر لیکن اسے پھر بھی نشان کارواں کہنا ہی پڑتا ہے یہ مانا وہ جفا پرور ہے ظالم ہے ستم گر ہے مگر ...

    مزید پڑھیے

    چمن محفوظ ہوگا میری دنیا مٹ گئی ہوگی

    چمن محفوظ ہوگا میری دنیا مٹ گئی ہوگی جہاں بجلی کو گرنا تھا وہیں بجلی گری ہوگی کہاں تک جبر کرتا دل پہ آخر میں بھی انساں ہوں طبیعت پھر طبیعت ہے کبھی گھبرا گئی ہوگی بدل جائے جو میر کارواں کیا فرق پڑتا ہے اگر جادہ وہی ہوگا تو منزل بھی وہی ہوگی خزاں کا دور ہوگا موسم گل جا چکا ...

    مزید پڑھیے

    جیتے جی آرام نہ آیا

    جیتے جی آرام نہ آیا مرنا بھی کچھ کام نہ آیا مے اپنی مے خانہ اپنا ہم تک دور جام نہ آیا درد نے کیا کیا پہلو بدلے لب پہ کسی کا نام نہ آیا برق سے تھا کیا دور نشیمن اس کا تڑپنا کام نہ آیا کہہ گئی نظریں غم کا فسانہ ضبط پہ کچھ الزام نہ آیا مے نہ ملی گر پی لیے آنسو میں کبھی تشنہ کام نہ ...

    مزید پڑھیے

    دل ہے کیوں اتنا پریشاں مجھے معلوم نہیں

    دل ہے کیوں اتنا پریشاں مجھے معلوم نہیں کون ہے سلسلہ جنباں مجھے معلوم نہیں اب یہ اللہ ہی جانے وہ خزاں تھی کہ بہار کب ہوا چاک گریباں مجھے معلوم نہیں مجھ کو معلوم ہے ہر درد کا درماں لیکن اپنے ہی درد کا درماں مجھے معلوم نہیں مسکراتا ہوں مصیبت میں یہ عادت ہے مری ضبط مشکل ہے کہ آساں ...

    مزید پڑھیے

    کس تکلف کس اہتمام سے ہم

    کس تکلف کس اہتمام سے ہم دل کو بہلا رہے ہیں شام سے ہم مے چھلکتی ہے رند پیاسے ہیں پھر بھی خوش ہیں اس انتظام سے ہم اب گلستاں میں آشیاں بھی نہیں اب کہاں جائیں چھٹ کے دام سے ہم مل گئی جب نگاہ ساقی سے ہو گئے بے نیاز جام سے ہم اس کا ہر اک قصور کر کے معاف مطمئن ہیں اس انتقام سے ...

    مزید پڑھیے

    اتنا ہی سہارا دل ناکام بہت ہے

    اتنا ہی سہارا دل ناکام بہت ہے اب ان کا تصور ہی سر شام بہت ہے اب کوئی ضرورت ہے دوا کی نہ دعا کی جس حال میں ہوں میں مجھے آرام بہت ہے گریہ سے ہے آغاز عمل بزم جہاں میں انسان کو اندیشۂ انجام بہت ہے کم ظرف ہیں کرتے ہیں جو پینے سے تکلف ساقی مجھے یہ درد تہ جام بہت ہے ابھری نہیں دل میں ...

    مزید پڑھیے

    غم کون و مکاں ہے اور میں ہوں

    غم کون و مکاں ہے اور میں ہوں نشاط جاوداں ہے اور میں ہوں قفس میں بھی مزے میں کٹ رہی ہے خیال آشیاں ہے اور میں ہوں کہاں کا راہبر اور کیسی منزل غبار کارواں ہے اور میں ہوں چمن ہے فصل گل ہے چاندنی ہے حدیث دلبراں ہے اور میں ہوں نگاہ برق ہے اور آشیاں ہے نگاہ باغباں ہے اور میں ہوں مآل ...

    مزید پڑھیے

    رات کب عازم سفر نہ ہوئی

    رات کب عازم سفر نہ ہوئی وقت کی بات تھی سحر نہ ہوئی جس سے تقدیر اپنے بس میں ہو ایسی تدبیر عمر بھر نہ ہوئی راہبر کب ہوا نہ تیرا خیال کب تری یاد ہم سفر نہ ہوئی درد اٹھا بد نصیب دل بیٹھا یہ تو سب کچھ ہوا سحر نہ ہوئی ان کو دیکھا ٹپک پڑے آنسو داستاں اور مختصر نہ ہوئی دو جہاں دور تھے ...

    مزید پڑھیے

    ہنساتے ہیں مجھ کو رلانے سے پہلے

    ہنساتے ہیں مجھ کو رلانے سے پہلے بنانے کی کوشش مٹانے سے پہلے رہا ہو کے اب کیا گلستاں کو جاؤں خزاں آ گئی میرے آنے سے پہلے تلاطم سے زور آزمانا پڑے گا سفینہ کو ساحل پہ لانے سے پہلے نہ بن جائے امید مایوس غم کو کوئی سوچ لے مسکرانے سے پہلے نہ پوچھ ان کی مخمور نظروں کا عالم سہارا ملا ...

    مزید پڑھیے

    غم کون و مکاں ہے اور میں ہوں

    غم کون و مکاں ہے اور میں ہوں نشاط جاوداں ہے اور میں ہوں قفس میں بھی مزے میں کٹ رہی ہے خیال آشیاں ہے اور میں ہوں کہاں کا راہبر اور کیسی منزل غبار کارواں ہے اور میں ہوں چمن ہے فصل گل ہے چاندنی ہے حدیث دلبراں ہے اور میں ہوں مآل امتحاں کیا جانے کیا ہو مسلسل امتحاں ہے اور میں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 4