چمن محفوظ ہوگا میری دنیا مٹ گئی ہوگی

چمن محفوظ ہوگا میری دنیا مٹ گئی ہوگی
جہاں بجلی کو گرنا تھا وہیں بجلی گری ہوگی


کہاں تک جبر کرتا دل پہ آخر میں بھی انساں ہوں
طبیعت پھر طبیعت ہے کبھی گھبرا گئی ہوگی


بدل جائے جو میر کارواں کیا فرق پڑتا ہے
اگر جادہ وہی ہوگا تو منزل بھی وہی ہوگی


خزاں کا دور ہوگا موسم گل جا چکا ہوگا
قفس سے جب میں چھوٹوں گا تو دنیا دوسری ہوگی


مجھے غم دینے والے ضبط غم کا حوصلہ بھی دے
یقیناً بعد اس کے شان غم کچھ اور ہی ہوگی


بہار آئے نہ آئے میں گریباں چاک کر لوں گا
اگر خاموش بیٹھوں گا تو یہ دیوانگی ہوگی


وہ شام ہجر ہو یا وصل کی شب فرق اتنا ہے
کہیں تیری کمی ہوگی کہیں میری کمی ہوگی


ہمارے آشیاں پر کب گریں گی بجلیاں آخر
سعیدؔ اللہ جانے کب چمن میں روشنی ہوگی