غم دل کو بہار بے خزاں کہنا ہی پڑتا ہے
غم دل کو بہار بے خزاں کہنا ہی پڑتا ہے
محبت کو حیات جاوداں کہنا ہی پڑتا ہے
نگاہیں حال دل کی ترجمانی کر ہی دیتی ہیں
خموشی کو بھی اک دن داستاں کہنا ہی پڑتا ہے
غبار راہ رہ جاتا ہے پیچھے چھوٹ کر لیکن
اسے پھر بھی نشان کارواں کہنا ہی پڑتا ہے
یہ مانا وہ جفا پرور ہے ظالم ہے ستم گر ہے
مگر پھر بھی اسے آرام جاں کہنا ہی پڑتا ہے
برا ہو یا بھلا اک آسرا ہے سر چھپانے کا
بہ ہر صورت قفس کو آشیاں کہنا ہی پڑتا ہے
کسی کو جب وہ میرے درد کا قصہ سناتے ہیں
سعیدؔ اس کو حدیث دیگراں کہنا ہی پڑتا ہے