Saeed Shahidi

سعید شہیدی

  • 1914 - 2000

سعید شہیدی کی غزل

    کیوں مصیبت میں ہوں مسرور تجھے کیا معلوم

    کیوں مصیبت میں ہوں مسرور تجھے کیا معلوم کیا محبت کے ہیں دستور تجھے کیا معلوم فطرت حسن ہے یہ یہ ہے تقاضائے شباب تو ہے کس واسطے مغرور تجھے کیا معلوم باغباں کب کی بہار آئی بھی رخصت بھی ہوئی میں قفس میں ہوں بدستور تجھے کیا معلوم گردش چشم کی لذت کوئی مجھ سے پوچھے وار اوچھا ہے کہ ...

    مزید پڑھیے

    جب کبھی فصل بہاراں کا خیال آتا ہے

    جب کبھی فصل بہاراں کا خیال آتا ہے ساتھ ہی چاک گریباں کا خیال آتا ہے جب بھی بے ساختہ زنجیر پہ جاتی ہے نظر آپ کی زلف پریشاں کا خیال آتا ہے یاد آ جاتی ہے کشتی کی تباہی مجھ کو کانپ اٹھتا ہوں جو طوفاں کا خیال آتا ہے آبلہ پائی کی تکلیف کا احساس نہیں زحمت خار مغیلاں کا خیال آتا ہے میں ...

    مزید پڑھیے

    رقص کرتی ہیں فلک پر بجلیاں اب کیا کروں

    رقص کرتی ہیں فلک پر بجلیاں اب کیا کروں میری پونجی ہے یہی اک آشیاں اب کیا کروں عار ہے سننے سے ان کو داستاں اب کیا کروں میرے قابو میں نہیں میری زباں اب کیا کروں عالم غربت ہے میں ہوں اور اندھیری رات ہے لٹ گیا ایسے میں سارا کارواں اب کیا کروں لیجئے رونے لگے ہچکی بندھی غش کر گئے اور ...

    مزید پڑھیے

    طبیعت سوئے آسانی کبھی مائل نہیں ہوتی

    طبیعت سوئے آسانی کبھی مائل نہیں ہوتی محبت میں کوئی مشکل بھی ہو مشکل نہیں ہوتی مسافر بیٹھ جاتا ہے جہاں بس بیٹھ جاتا ہے پھر اس کے بعد اس کو خواہش منزل نہیں ہوتی بناتے ہی نشیمن برق آتی ہے جلانے کو خدا کا شکر ہے محنت مری زائل نہیں ہوتی تری محفل میں کون آیا تری محفل سے کون اٹھا تجھے ...

    مزید پڑھیے

    ملا ہے جبر میں بھی اتنا اختیار مجھے

    ملا ہے جبر میں بھی اتنا اختیار مجھے جو بے قرار ہوا آ گیا قرار مجھے نہ فصل گل کی خطا ہے نہ بادلوں کا قصور تری نظر نے بنایا ہے بادہ خوار مجھے بسا ہے روح کے پردوں میں آج تک وہ سرور پکار پھر اسی انداز سے پکار مجھے میں پھر قفس میں ہوں پھر آئی ہے چمن میں بہار پھر اب کے یاد کرے گی مجھے ...

    مزید پڑھیے

    دیوانوں میں نام کر رہا ہوں

    دیوانوں میں نام کر رہا ہوں کرنا ہے جو کام کر رہا ہوں دنیا تری دل فریبیوں میں بے لاگ قیام کر رہا ہوں خود پھونک کے اپنا آشیانہ بجلی کو سلام کر رہا ہوں انگڑائیاں لے رہا ہے کوئی افسانہ تمام کر رہا ہوں خاموش ہے کائنات ساری میں دل سے کلام کر رہا ہوں مرنے پہ مرے نہ رؤو اتنا تبدیل ...

    مزید پڑھیے

    سر محفل دل تنہا پہ ہنسی آتی ہے

    سر محفل دل تنہا پہ ہنسی آتی ہے مجھ کو اس غنچۂ صحرا پہ ہنسی آتی ہے ہاں ترا وعدۂ فردا تھا کبھی وجہ حیات اب اسی وعدۂ فردا پہ ہنسی آتی ہے شب مہ موسم گل اور جوانی توبہ ایسی بے وقت کی توبہ پہ ہنسی آتی ہے کبھی ٹوٹی ہوئی کشتی پہ ترس آتا ہے کبھی چڑھتے ہوئے دریا پہ ہنسی آتی ہے میں جواں ...

    مزید پڑھیے

    غم دل کو بہار بے خزاں کہنا ہی پڑتا ہے

    غم دل کو بہار بے خزاں کہنا ہی پڑتا ہے محبت کو حیات‌‌ جاوداں کہنا ہی پڑتا ہے کہاں جاتا ہے رہبر کون ہے اور ہے کہاں منزل مسافر سے بھی حال کارواں کہنا ہی پڑتا ہے برا ہو یا بھلا ہو اک آسرا ہے سر چھپانے کا بہر صورت قفس کو آشیاں کہنا ہی پڑتا ہے یہ مانا وہ جفا پرور ہے ظالم ہے ستم گر ...

    مزید پڑھیے

    شام غم جب در بدر ہو جائے گی

    شام غم جب در بدر ہو جائے گی وقت سے پہلے سحر ہو جائے گی دل کی دھڑکن کا سہارا چاہئے آہ پابند اثر ہو جائے گی آپ چلنے کا ارادہ تو کریں ساری دنیا ہم سفر ہو جائے گی ڈال تو دیجے نشیمن کی بنا برق کو خود ہی خبر ہو جائے گی اپنی آہوں پر بھروسا ہے مجھے جب میں چاہوں گا سحر ہو جائے گی مسکرانے ...

    مزید پڑھیے

    رنج و غم سہے کب تک مجھ سا ناتواں تنہا

    رنج و غم سہے کب تک مجھ سا ناتواں تنہا میں ہی رہ گیا ہوں کیا زیر آسماں تنہا اس ادا سے کرتے ہیں ذکر حضرت واعظ جیسے آپ ہی تو ہیں مالک جناں تنہا ایک ہو کا عالم ہے گل ہے اور نہ غنچے ہیں کیا کرے گا گلشن میں رہ کے باغباں تنہا اب وطن کی قوت کا حال پوچھتے کیا ہو ایک ایک لشکر ہے ایک اک جواں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 4