دل ہے کیوں اتنا پریشاں مجھے معلوم نہیں
دل ہے کیوں اتنا پریشاں مجھے معلوم نہیں
کون ہے سلسلہ جنباں مجھے معلوم نہیں
اب یہ اللہ ہی جانے وہ خزاں تھی کہ بہار
کب ہوا چاک گریباں مجھے معلوم نہیں
مجھ کو معلوم ہے ہر درد کا درماں لیکن
اپنے ہی درد کا درماں مجھے معلوم نہیں
مسکراتا ہوں مصیبت میں یہ عادت ہے مری
ضبط مشکل ہے کہ آساں مجھے معلوم نہیں
پھول بن جانے کو یا نذر خزاں ہونے کو
کس لیے کھلتی ہیں کلیاں مجھے معلوم نہیں
ان کی مرضی ہو تو اک آہ سے آغاز کروں
ابھی افسانے کا عنواں مجھے معلوم نہیں
یوں نشیمن میں ہوں جس طرح قفس میں ہو کوئی
ابھی آئین گلستاں مجھے معلوم نہیں
جانتا ہوں مرے دل میں بھی کچھ ارماں ہیں سعیدؔ
کیسے بر آتے ہیں ارماں مجھے معلوم نہیں