اتنا ہی سہارا دل ناکام بہت ہے

اتنا ہی سہارا دل ناکام بہت ہے
اب ان کا تصور ہی سر شام بہت ہے


اب کوئی ضرورت ہے دوا کی نہ دعا کی
جس حال میں ہوں میں مجھے آرام بہت ہے


گریہ سے ہے آغاز عمل بزم جہاں میں
انسان کو اندیشۂ انجام بہت ہے


کم ظرف ہیں کرتے ہیں جو پینے سے تکلف
ساقی مجھے یہ درد تہ جام بہت ہے


ابھری نہیں دل میں کبھی امید کرم بھی
تیرا یہ کرم گردش ایام بہت ہے


میں نام نہ لوں گا کبھی فریاد و فغاں کا
جیتا ہوں محبت میں یہی کام بہت ہے


ہم جاتے ہیں پیاسے ترے مے خانہ سے ساقی
سنتے تو یہ تھے تیرا کرم عام بہت ہے


احباب کریں اب نہ سعیدؔ اس میں اضافہ
دشمن سے جو ملتا ہے وہ انعام بہت ہے