رات کب عازم سفر نہ ہوئی

رات کب عازم سفر نہ ہوئی
وقت کی بات تھی سحر نہ ہوئی


جس سے تقدیر اپنے بس میں ہو
ایسی تدبیر عمر بھر نہ ہوئی


راہبر کب ہوا نہ تیرا خیال
کب تری یاد ہم سفر نہ ہوئی


درد اٹھا بد نصیب دل بیٹھا
یہ تو سب کچھ ہوا سحر نہ ہوئی


ان کو دیکھا ٹپک پڑے آنسو
داستاں اور مختصر نہ ہوئی


دو جہاں دور تھے قریب تھا میں
میری جانب کبھی نظر نہ ہوئی


رحم آیا کبھی نہ ان کو سعیدؔ
شام غم کی کبھی سحر نہ ہوئی