کس تکلف کس اہتمام سے ہم
کس تکلف کس اہتمام سے ہم
دل کو بہلا رہے ہیں شام سے ہم
مے چھلکتی ہے رند پیاسے ہیں
پھر بھی خوش ہیں اس انتظام سے ہم
اب گلستاں میں آشیاں بھی نہیں
اب کہاں جائیں چھٹ کے دام سے ہم
مل گئی جب نگاہ ساقی سے
ہو گئے بے نیاز جام سے ہم
اس کا ہر اک قصور کر کے معاف
مطمئن ہیں اس انتقام سے ہم
بجلیاں گر رہی ہیں گلشن پر
لٹ رہے ہیں کس اہتمام سے ہم
تم جہاں ساتھ دے نہیں سکتے
اب گزرتے ہیں اس مقام سے ہم
مہرباں تھے سعیدؔ وہ کل تک
آج محروم ہیں سلام سے ہم