رضوانہ سعید روز کی غزل

    ہو رہی تھی کمی اداسی کی

    ہو رہی تھی کمی اداسی کی پھر یہ محفل جمی اداسی کی میرے آنسو نکال دیتی ہے گفتگو باہمی اداسی کی وصل کی مسکراہٹیں لب پر آنکھ میں ہے نمی اداسی کی محفلوں میں بھی کس قدر تنہا دیکھیے برہمی اداسی کی صبح ہوتے ہی رو پڑی شبنم دیکھ کر بے بسی اداسی کی روزؔ جب شام ہو گئی گہری خیریت پوچھ لی ...

    مزید پڑھیے

    برف ہوتی ہوئی حدت کو نہیں جانتے ہو

    برف ہوتی ہوئی حدت کو نہیں جانتے ہو تم پگھلنے کی اذیت کو نہیں جانتے ہو دیکھیے عام عداوت میں تو گنجائش ہے تم مگر جوش رقابت کو نہیں جانتے ہو بے گناہی کے لیے آگ پہ چلنا ہوگا تم قبیلے کی روایت کو نہیں جانتے ہو اب پلٹنے کا نتیجہ ہے کسی ایک کی موت تم مرے پیار کی شدت کو نہیں جانتے ...

    مزید پڑھیے

    اگرچہ مسئلہ اتنا نہیں ہے

    اگرچہ مسئلہ اتنا نہیں ہے مگر ہاں فائدہ اتنا نہیں ہے مجھے چلتے ہوئے عرصہ ہوا ہے وگرنہ فاصلہ اتنا نہیں ہے بڑھا رکھا ہے زیب داستان کو حقیقی واقعہ اتنا نہیں ہے سر رہ ہی ہے بس ملنا ملانا تمہارا رابطہ اتنا نہیں ہے بہت محدود ہیں سمٹے ہوئے ہیں ہمارا دائرہ اتنا نہیں ہے

    مزید پڑھیے

    ہم جو ہر بار خواب دیکھتے ہیں

    ہم جو ہر بار خواب دیکھتے ہیں یعنی بیکار خواب دیکھتے ہیں رات کا پہر ہو کہ دن کا سماں ہم لگاتار خواب دیکھتے ہیں شہر کا مسئلہ بنے ہوئے ہیں یہ جو دو چار خواب دیکھتے ہیں لشکری ان پہ ٹوٹ پڑتے ہیں جتنے ادوار خواب دیکھتے ہیں سو رہے تھے تو خواب دیکھتے تھے ہو کے بیدار خواب دیکھتے ...

    مزید پڑھیے

    چھوڑ اپنی دلیل رہنے دے

    چھوڑ اپنی دلیل رہنے دے دل کو میرا وکیل رہنے دے شہر دل کو بچا نہ پائے گی ایک جانب فصیل رہنے دے میں ترے آسماں پہ لہراؤں کھینچ کر چھوڑ ڈھیل رہنے دے مشورہ ہے گمان منزل کا ہے مسافت طویل رہنے دے فیصلے پر یہ فیصلہ ہے روزؔ سامنا کر اپیل رہنے دے

    مزید پڑھیے

    کون کہتا ہے میں ادھوری ہوں

    کون کہتا ہے میں ادھوری ہوں میں تو ہر زاویے سے پوری ہوں بیوی بیٹی بہو بہن بھائی کوئی رشتہ ہو میں ضروری ہوں میں ہوں تیرے شعور کا حصہ تیری سوچوں میں لا شعوری ہوں مجھ سے تہذیب اور تمدن ہے نیاز مندی ہوں جی حضوری ہوں خاک ہوں اور نمو کا باعث ہوں روزؔ ناری ہوں اور نہ نوری ہوں

    مزید پڑھیے

    ایک اڑان کا ڈر اور میں

    ایک اڑان کا ڈر اور میں میرے ٹوٹے پر اور میں بھیگ رہے ہیں ساون میں میری چشم تر اور میں ڈوب گئے ہیں صحرا میں شام کا اک منظر اور میں کروٹ سلوٹ اکتاہٹ نیند بھرا بستر اور میں خواب کا منظر خواب نہیں اتنے سارے در اور میں ہنستے بستے جیتے ہیں مرشد بچے گھر اور میں

    مزید پڑھیے

    وہ مجھے دل میں یاد کرتا ہے

    وہ مجھے دل میں یاد کرتا ہے رنگ چہرے کا بول اٹھتا ہے بجھنے لگتیں ہیں جب مری آنکھیں آخر شب چراغ جلتا ہے نیند میں آ رہی ہیں آوازیں واہمہ دور جا نکلتا ہے جب چمکتی ہے فکر آنکھوں میں تب کہیں راستہ نکلتا ہے روزؔ اک خواہشوں کا جولاہا خواب بنتا ہے خواب بنتا ہے

    مزید پڑھیے

    کب سے ایک تعطل ہے

    کب سے ایک تعطل ہے میرے پاس تحمل ہے ہر مشکل میں اک ہتھیار میرے پاس توکل ہے تیرا کوئی مرشد ہے جی ہاں جی ہاں بالکل ہے بات سمجھ میں آتی ہے تھوڑا بہت تعقل ہے دیکھا ہے بن کر انجان یہ تو صاف تغافل ہے آنے میں کچھ مانع ہے کچھ بھی نہیں تساہل ہے روزؔ کی غزلوں پر تنقید سب کچھ مع تغزل ہے

    مزید پڑھیے

    مجھے جو شخص قلندر دکھائی دیتا ہے

    مجھے جو شخص قلندر دکھائی دیتا ہے وہ میرے خواب کے اندر دکھائی دیتا ہے یہ لگ رہا ہے مرا شہر چھوڑ جائے گا وہ آج کل مجھے اکثر دکھائی دیتا ہے تو کیا یہ مان لوں میں آسماں سے اوپر ہوں ہر اک ستارہ زمیں پر دکھائی دیتا ہے جو سامنے ہے صریحاً نظر کا ہے دھوکا وہ ہے نہیں جو بظاہر دکھائی دیتا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2